معصوم بچوں کی لاشیں سڑکوں پر رکتی ہیں، تو انصاف کا غریب بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔”

مشرقی خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں پیر کے روز مشتبہ ڈرون یا کوآڈکوپٹر حملے میں چار بچوں کی موت اور پانچ دیگر افراد کے زخمی ہونے کے خلاف ہزاروں مقامی شہری احتجاج کر رہے ہیں۔ حملہ ہرمز گائوں، تحصیل میرعلی میں پیش آیا جہاں چار بچے ایک ہی خاندان سے جان بحق ہوئے، جبکہ ایک عورت سمیت زخمیوں کو میرعلی اسپتال منتقل کیا گیا ۔
احتجاجیوں نے بچوں کی لاشیں میرعلی چوک کی مرکزی سڑک پر رکھ کر نعرے بازی کی اور عدالتی تحقیقات کے لیے ذمہ داروں کی شناخت و مقدمے کا مطالبہ کیا۔ قبائلی بزرگ مفتی بیٹ اللہ کا کہنا تھا:
“ہم کسی پر الزام نہیں لگا رہے، مگر انصاف چاہیٔے—جب تک قاتلوں کا پتہ نہیں چلتا، یہ لاشیں دفن نہیں ہوں گی۔” ۔
خیبر پختونخوا کے وزیر برائے ریلیف نائق محمد داور نے واقعے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ بچوں کے خون کا کوئی اجر ضائع نہیں جائے گا، تحقیقات جاری ہیں اور ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی
علاقائی لوگ کرتے ہیں الزام کہ نہ صرف غیر ملکی ایجنسیوں بلکہ مقامی عسکری اور ضلعی سیکیورٹی فورسز بھی کوآڈکوپٹرز استعمال کرتی آئی ہیں، جس سے یہ جاننا مشکل ہو گیا ہے کہ حملہ آور اصل میں کون تھا۔ تاہم دونوں جانب سے تاحال کوئی سرکاری وضاحت یا تردید نہیں آئی ۔
یہ احتجاج اس پس منظر میں آیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی جاری آپریشن “عزمِ استحکام” اور تی ٹی پی سمیت متعدد مسلح گروہوں کے خلاف کارروائیوں نے کنٹرول شدہ فضائی حملوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ مقامی رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ مستقل امن کے لیے شفاف اور غیرجانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کرائی جائیں تاکہ مستقبل میں شہری جانی نقصان روکا جا سکے۔