“جب ملک تباہی کے دہانے پر ہو اور حکمران ملیں سینکڑوں فیصد تنخواہ کے اضافے!”

پاکستان میں حالیہ ماہوں کے دوران قانون سازوں اور حکومتی وزراء کی تنخواہوں میں ریکارڈ شگاف اضافے نے عوامی غم و غصے کی حدیں پار کر دیں۔ جبکہ کسان، صنعتیں اور معیشت بحران کا شکار ہیں، سیاسی قیادت نے خود کو فی کس لاکھوں روپے ماہانہ مراعات سے نوازا ہے:
17 دسمبر 2024: پنجاب اسمبلی کے ممبران (ایم پی ایز) اور وزراء کی تنخواہوں میں تاریخی اضافہ ہوا۔ وزیروں کی آمدنی میں 860 فیصد اور ایم پی ایز کی تنخواہوں میں 426 فیصد اضافہ کیا گیا، جس کے بعد ہر وزیر کی ماہانہ بنیادی تنخواہ ہزاروں سے لاکھوں روپے تک پہنچ گئی۔
1 فروری 2025: قانون سازوں کے لیے ایک اور پیکیج منظور ہوا، جس کے تحت ایم این ایز و ایم پی ایز کی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ کیا گیا۔ اس نے ایک عام رکن اسمبلی کی ماہانہ تنخواہ کو تقریباً تین گنا بڑھا دیا۔
4 مئی 2025: وفاقی وزراء کی ماہانہ تنخواہ کو پانچ لاکھ 19 ہزار روپے طے کر دیا گیا تاکہ وہ ممبران قومی اسمبلی کی تنخواہوں کے برابر ہو جائیں۔ اس فیصلے نے وفاقی کابینہ کے اخراجات میں نمایاں اضافہ کر دیا۔
10 جون 2025: چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں پانچ گنا سے زائد اضافہ کر کے انہیں بھی لاکھوں روپے ماہانہ مراعات دی گئیں۔
معیشت اور کارکردگی کا المیہ
کسانوں کی بربادی: زرعی شعبے میں ریگولیٹری عدم استحکام، توانائی اور کھاد کی قلت کے باعث فصلیں تباہ ہوئیں اور کسان قرضوں کے نیچے دب گئے۔
صنعتوں کا بحران: لوڈشیڈنگ، براہ راست غیر یقینی مارکیٹ پالیسیاں اور ٹیکس کی بڑھتی شرحوں نے صنعتوں کو بحران کی دہلیز پر کھڑا کر دیا۔
بجلی کی کھپت میں کمی: اقتصادی سرگرمیوں میں سستی کے باعث انتہائی کم ترین بجلی کی طلب ریکارڈ کی گئی، جو معاشی سست روی کی عکاسی ہے۔
GDP کے ہدف سے کم؛ ترقی کی شرح نیچے: سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سالانہ GDP کا طے شدہ ہدف حاصل نہ ہو سکا اور شرح نمو توقعات سے کافی نیچے رہی۔
اس پورے عمل کے دوران حکومت نے عوامی مشکلات میں اضافہ ہوتا دیکھا لیکن تنخواہوں کے اضافے کو ضروری جانا، جس نے حکومتی ترجیحات پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس وقتی فیصلے نے بجٹ خسارے کو مزید بڑھایا اور عوامی فلاح و بہبود کے بجائے سیاسی مراعات کو اولین ترجیح دی گئی۔