جب جنگ کے دھوئیں میں سچ اور افواہ میں فرق مٹنے لگے، تب حقائق کی چھان بین فرض بن جاتی ہے۔

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ گردش کر رہا ہے کہ اسرائیلی وزارتِ دفاع کا ہیڈکوارٹر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، اور ایک مخصوص تصویر کو اس واقعے سے جوڑا جا رہا ہے۔ لیکن ایسے دعوے نہ صرف حساس نوعیت کے ہوتے ہیں، بلکہ ان کے اثرات بھی عالمی سطح پر شدید ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے سچائی کی تصدیق بہت اہم ہے۔
1. سرکاری یا بین الاقوامی تصدیق کہاں ہے؟
اگر واقعی اسرائیلی وزارت دفاع جیسی اہم ترین تنصیبات میں سے ایک تباہ ہوئی ہوتی، تو اس کی خبر فوراً بین الاقوامی میڈیا، جیسے BBC، Al Jazeera، Reuters، یا CNN پر نمایاں طور پر نشر کی جاتی۔ اب تک ایسا کوئی مصدقہ اعلان یا کوریج موجود نہیں، جو اس دعوے کی تصدیق کرے۔
2. تصویر کا تجزیہ ضروری ہے:
اکثر اوقات جنگی ماحول میں پرانے یا غیر متعلقہ ویژولز کو نئے واقعات سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسی کسی تصویر کی صداقت جانچنے کے لیے “ریورس امیج سرچ” جیسی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ تصویر کہاں سے آئی، کب لی گئی، اور اصل میں کیا دکھا رہی ہے۔
3. جنگی ماحول میں پروپیگنڈا عام ہوتا ہے:
اسرائیل، حماس، یا کسی بھی تنازع کے فریق کی طرف سے معلوماتی جنگ (information warfare) ایک عمومی حکمت عملی ہوتی ہے۔ اس میں دشمن کے حوصلے پست کرنے کے لیے جھوٹی کامیابیاں یا بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی تباہ کاریاں شامل ہوتی ہیں۔
اسرائیلی وزارت دفاع کی تباہی کا دعویٰ فی الحال ناقابلِ تصدیق ہے، اور اسے صرف سوشل میڈیا پر پھیلنے والے بیانیے کے طور پر ہی دیکھا جا سکتا ہے جب تک کہ کوئی مستند، بین الاقوامی یا سرکاری ذریعہ اس کی تصدیق نہ کرے۔ ایسے دعوؤں کو بغیر تحقیق شیئر کرنا نہ صرف گمراہ کن ہو سکتا ہے، بلکہ فکری ذمہ داری سے بھی پہلوتہی کے مترادف ہے.