“جب گریٹر اسرائیل کا خواب پھیلتا ہے، تو ہمسائے بیدار ہونا شروع ہو جاتے ہیں!”

اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے حالیہ بیان، جس میں انہوں نے ’گریٹر اسرائیل‘ کے خواب کو عملی شکل دینے کی بات کی، مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی کشیدگی کی بنیاد رکھ چکی ہے۔
یہ محض ایک سیاسی بیان نہیں، بلکہ ایک توسیع پسندانہ عزائم کی کھلی علامت ہے، جو اردن، لبنان، شام اور فلسطین جیسے ممالک کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اردن — جو طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں نسبتاً پُرامن کردار ادا کرتا رہا — اب لازمی فوجی سروس کی بحالی پر مجبور ہوا ہے۔ یہ فیصلہ دراصل ایک احتیاطی دفاعی اقدام ہے، جو واضح کرتا ہے کہ اردن اب اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو صرف سفارتی سطح پر برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں۔
⚠️ نیتن یاہو کا گریٹر اسرائیل بیانیہ:
نیتن یاہو کا بیانیہ نہ صرف فلسطینیوں کے وجود کو مکمل طور پر مٹانے کا عندیہ دیتا ہے، بلکہ یہ اردن کے مغربی کنارے پر اسرائیلی دعوے کو بھی ہوا دیتا ہے۔ اسرائیلی تاریخ میں “گریٹر اسرائیل” کا مطلب صرف جغرافیہ نہیں، بلکہ مکمل علاقائی غلبہ ہے۔
⚔️ اردن کی جوابی تیاری:
اردن کا لازمی فوجی خدمت کی بحالی کا اعلان ایک خاموش مگر سخت پیغام ہے کہ اب عسکری تیاریوں کا دور واپس آ رہا ہے۔ اس فیصلے سے خطے کے دیگر ممالک پر بھی دباؤ بڑھے گا کہ وہ صرف مذمتوں تک محدود نہ رہیں۔
🌍 عالمی برادری کی خاموشی:
یہ سب کچھ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کے سائے میں ہو رہا ہے۔ نہ اقوامِ متحدہ نے کوئی مؤثر ردِعمل دیا، نہ مغربی طاقتوں نے نیتن یاہو کی توسیع پسندانہ سوچ پر کوئی روک لگائی۔
نیتن یاہو کا گریٹر اسرائیل کا خواب صرف فلسطین کی زمین پر نہیں بلکہ پورے خطے کی خودمختاری پر حملہ ہے۔ اردن کی فوجی پالیسی میں یہ تبدیلی بتاتی ہے کہ اب مشرقِ وسطیٰ میں خاموشی سے تیاری کا دور شروع ہو چکا ہے۔
اگر دنیا نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں، تو کل یہ خواب ایک تباہ کن حقیقت میں بدل سکتا ہے۔