“جب پورا خطہ جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے، آیت اللہ خامنہ ای کا واضح پیغام: ‘ہم صہیونیوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے’۔”

جب بھی مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھتی ہے، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا نظریاتی مؤقف سامنے آتا ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ، فضائی حملوں، اور علاقائی محاذ آرائیوں کے تناظر میں آیت اللہ خامنہ ای کا یہ دو ٹوک بیان:
“ہم صہیونیوں کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے”
صرف ایک سیاسی پیغام نہیں بلکہ ایک نظریاتی اعلان ہے۔
ایران کا تاریخی مؤقف:
ایران نے اسلامی انقلاب (1979) کے بعد سے ہی اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا ہے۔ آیت اللہ خمینی سے لے کر آیت اللہ خامنہ ای تک، ہر رہنما نے فلسطین کی حمایت اور صہیونیت کی مخالفت کو ایران کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون قرار دیا ہے۔
اسرائیل کو “غاصب ریاست” کہا جاتا ہے
فلسطین کی مکمل آزادی کو “اسلامی فریضہ” سمجھا جاتا ہے
اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کو حرام قرار دیا گیا ہے
موجودہ کشیدگی اور خامنہ ای کا بیان:
حالیہ مہینوں میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی نے عملی جنگ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ایران نے اسرائیل کے خلاف میزائل اور ڈرون حملے کیے، جن کا مقصد اس کے فوجی ٹھکانوں اور دفاعی نظام کو نشانہ بنانا تھا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس سیاق و سباق میں کہا:
“ہم ان کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ جو لوگ صہیونی حکومت کو قبول کرتے ہیں، وہ اسلام اور انسانیت کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں۔”
خطے میں اثرات:
آیت اللہ خامنہ ای کے بیان کے بعد مشرق وسطیٰ میں:
لبنان، فلسطین اور یمن کے مزاحمتی گروہوں نے ایران کے مؤقف کی مکمل حمایت کی
امریکا اور اسرائیل نے ایران پر مزید پابندیوں اور جوابی کارروائی کی دھمکیاں دیں
پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں عوامی مظاہرے ہوئے جن میں اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے گئے
نظریاتی پیغام:
آیت اللہ خامنہ ای کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ایران کی حکمت عملی صرف عسکری نہیں، بلکہ نظریاتی بھی ہے۔ یہ اعلان صرف راکٹ اور میزائل کی جنگ نہیں بلکہ “نظریے اور مزاحمت” کی جنگ ہے۔
یہ لڑائی حق اور باطل کی جنگ قرار دی جاتی ہے
ایرانی قیادت اسے ایک طویل مزاحمتی جہاد سمجھتی ہے
سمجھوتے کو اسلامی اصولوں کی توہین قرار دیا جاتا ہے
آیت اللہ خامنہ ای کا اعلان — “ہم صہیونیوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے” — ایک معمولی جملہ نہیں، بلکہ خطے میں جاری سرد و گرم جنگ کی بنیاد ہے۔ یہ بیان نہ صرف ایران کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کرتا ہے بلکہ آنے والے دنوں میں مشرق وسطیٰ میں سیاسی و عسکری منظرنامے کو بھی متاثر کرے گا