جب عدلیہ خود کو بدلنے نکلے، تو انصاف کے دروازے کھلنے لگتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی سپریم کورٹ رپورٹرز سے حالیہ ملاقات پاکستانی عدالتی نظام کے مستقبل کی سمت کا اشارہ دیتی ہے۔ یہ ملاقات صرف رسمی نہیں تھی، بلکہ ایک سوچے سمجھے وژن کا مظہر تھی جس میں عدلیہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے، مقدمات کے جلد فیصلے ممکن بنانے، اور ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال جیسے اہم موضوعات پر کھل کر گفتگو کی گئی۔

چیف جسٹس نے اپنے چینی عدالتی نظام کے حالیہ مشاہداتی دورے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ چین کی سپریم کورٹ میں 367 ججز ہیں اور وہاں کوئی بھی مقدمہ زیر التواء نہیں۔ پاکستانی عدالتی نظام کے مقابلے میں اس حقیقت نے خود چینی ججز کو حیران کر دیا کہ یہاں لاکھوں مقدمات سالہا سال سے زیر التواء پڑے ہیں۔ یہ موازنہ نہ صرف پاکستانی عدلیہ کی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اصلاحات کی فوری اور سنجیدہ ضرورت کا بھی تقاضا کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کی شمولیت صرف ایک آپشن نہیں بلکہ ناگزیر حقیقت ہے۔ ان کے مطابق ٹیکنالوجی کوئی جادوئی گولی نہیں جسے کھانے سے سب کچھ درست ہو جائے، بلکہ مؤثر نتائج کے لیے مکمل ڈیٹا اکٹھا کرنا ہوگا تاکہ مصنوعی ذہانت جیسے جدید ذرائع سے حقیقی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ دلچسپ طور پر انہوں نے تسلیم کیا کہ پانچوں ہائی کورٹس میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے جو ترقی ہوئی ہے وہ سپریم کورٹ سے بھی بہتر ہے، جو خود عدلیہ کے اندرونی ڈھانچے میں ناہمواری کی نشاندہی کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے چند عملی اقدامات کا ذکر بھی کیا۔ فوجداری مقدمات کے لیے دو مستقل اور ایک عارضی بینچ قائم کیے جا چکے ہیں۔ سزائے موت کی 403 اپیلوں میں سے 178 فیصل ہو چکی ہیں، اور عمر قید کی 1200 سے زائد اپیلیں تاحال زیر التواء ہیں، جن میں سے کئی قیدی دو تہائی سزا کاٹ چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ فوری انصاف نہ ملنے کی وجہ سے کئی افراد برسوں قید میں رہتے ہیں، جس سے انصاف کا بنیادی تصور مجروح ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے عدالتی عمل کو ڈیجیٹل بنانے کی سمت بھی اہم قدم اٹھایا ہے۔ 15 جون سے صرف درخواستوں کی سافٹ کاپی قبول کی جائے گی اور کاغذی نقول کی تعداد بھی کم کر دی گئی ہے۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ اگر ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے مالی وسائل درکار ہوئے تو بیرونی ڈونرز سے بھی مدد لی جائے گی۔ یہ ایک کھلا پیغام ہے کہ عدلیہ روایتی تنگ نظری سے نکل کر عملی اور بین الاقوامی سطح کی حکمت عملی اپنانے کو تیار ہے۔

مزید برآں، ضلعی عدلیہ میں شام کی شفٹ متعارف کرانے کا اعلان ایک ایسا انقلابی اقدام ہے جو مقدمات کے جلد فیصلے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ شام کے اوقات میں کام کرنے والے ججز کو 50 فیصد اضافی تنخواہ دینے کی تجویز ایک پرکشش ترغیب ہے، جو عدلیہ کو مزید فعال بنانے کی کوشش کا حصہ ہے۔

انہوں نے آئینی، انتظامی اور عدالتی دائرہ کار کی حدود کا بھی احترام کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے اور جب تک کوئی قانون عدالت سے کالعدم نہ ہو، اسے نافذ العمل مانا جائے گا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلوں سے متعلق رائے دینے سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے عدالتی وقار کو برقرار رکھا، جبکہ سنیارٹی کے اصول پر بھی نرمی کے بجائے شفافیت کی وکالت کی۔

چیف جسٹس کی جانب سے اینٹی کرپشن ہاٹ لائن پر آنے والی 14 ہزار شکایات کا ذکر بھی اہم تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام اب عدلیہ کو سننے اور اس سے رجوع کرنے لگے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ عدلیہ کو عوام کے ساتھ اپنے مثبت اقدامات بہتر طریقے سے شیئر کرنے ہوں گے تاکہ عدالتی اعتماد کی بحالی ممکن ہو سکے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں