جب امن کی راہیں بند کر دی جائیں، تو جنگ کے دروازے خودبخود کھل جاتے ہیں۔”

امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے حالیہ ایران پر حملوں کی سخت مذمت کی ہے اور انہیں “غیر قانونی اور اشتعال انگیز” قرار دیا ہے۔ یہ بیان امریکی سیاست میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ سینڈرز کی بات صرف ایک تنقید نہیں، بلکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر سوالیہ نشان بھی ہے۔
1. مذاکرات کا خاتمہ اور حملہ:
برنی سینڈرز نے انکشاف کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں مذاکرات اتوار کو طے پانے والے تھے، مگر اسی موقع پر نیتن یاہو کی طرف سے حملہ کر کے ایک اعلیٰ ایرانی جنگ بندی مذاکرات کار کو ہلاک کر دیا گیا۔
اس سے نہ صرف مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو گیا، بلکہ خطے میں کشیدگی بڑھ گئی
امن کی کوششیں زمین بوس ہو گئیں، جس کا نقصان پورے خطے کو اٹھانا پڑے گا
2. “ہم نیتن یاہو کی ایک اور جنگ میں نہیں گھسیٹے جا سکتے”:
یہ جملہ سینڈرز کا واضح پیغام ہے کہ امریکہ کو اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔
امریکہ کو ایک ثالث کے طور پر امن کے قیام میں کردار ادا کرنا چاہیے، نہ کہ جنگ کی آگ میں ایندھن ڈالنا
اس بیان میں داخلی امریکی سیاست کی بھی جھلک ملتی ہے، جہاں عوامی رائے اسرائیل کی حمایت میں یکسو نہیں رہی
3. خطے پر اثرات:
ایران اور اسرائیل کے درمیان یہ تازہ تنازع خطے کو مزید غیر مستحکم کر سکتا ہے
امن مذاکرات کی ناکامی سے عسکری کشیدگی میں اضافہ ہوگا، جو عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہے
برنی سینڈرز کا ردعمل ایک واضح انتباہ ہے کہ “بے جا حملے امن کے دروازے بند کر دیتے ہیں اور جنگ کے در کھول دیتے ہیں”۔
امریکہ کو چاہیے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو مذاکرات اور سفارتی راستے اپنانے کی ترغیب دے، تاکہ خطے میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔