جب ’آئرن مین‘ کے گرد حفاظتی دیواریں کمزور پڑنے لگیں، تو عوام سوال اٹھانا شروع کر دیتی ہے۔

نریندر مودی کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے جب 2014 میں اقتدار میں لایا، تو ایک خاص تصوراتی بیانیہ کے ساتھ پیش کیا گیا:

’لوہ پُرُش‘ یعنی وہ مردِ آہن جو قوم کو بیرونی خطرات اور اندرونی کمزوریوں سے بچا سکتا ہے۔

’ہندو ہردے سمرات‘ یعنی ہندو اکثریت کے جذبات کا نمائندہ، جس کی موجودگی خود ایک نظریاتی فتح سمجھی گئی۔

یہ بیانیہ کئی برسوں تک بڑی حد تک کارگر رہا، خاص طور پر جب پاکستان کے خلاف بالاکوٹ اسٹرائیک جیسے اقدامات کو سیاسی طور پر کیش کروایا گیا۔ مگر حالیہ پہلگام حملہ اس بیانیے کے لیے ایک بڑا دھچکا بن کر ابھرا ہے۔

1. پہلگام حملے نے بیانیہ ہلا دیا:
جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والا حملہ نہ صرف سکیورٹی کی بظاہر ناکامی کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ:

کیا واقعی بھارت اندرونی طور پر محفوظ ہے؟

اگر “آئرن مین” کی قیادت میں بھی شہری محفوظ نہیں، تو پھر یہ آہنی قیادت کس کام کی؟

2. عوامی تاثر میں دراڑ:
سوشل میڈیا، اپوزیشن جماعتوں، اور یہاں تک کہ کچھ غیرجانبدار تجزیہ کاروں کی طرف سے بھی یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ:

مودی سرکار کی سکیورٹی پالیسیوں میں جھول نظر آ رہا ہے

قومی سلامتی پر سوالات، اب صرف دشمنوں کا پروپیگنڈا نہیں، بلکہ عوام کا تحفظاتی خدشہ بن چکے ہیں

3. عالمی سطح پر بھی چمک کمزور پڑی؟
پہلے، مودی کی بین الاقوامی ساکھ — جیسے “Howdy Modi” جیسے بڑے ایونٹس، یا امریکی و اسرائیلی قیادت سے نزدیکی — سفارتی کامیابیوں کے طور پر بیچی جاتی تھی۔
لیکن:

ہیومن رائٹس کے الزامات، میڈیا پر قدغن، اقلیتوں کے خلاف تشدد اور اب سکیورٹی فیلیرز نے اس چمک کو دھندلا دیا ہے

مغربی میڈیا میں بھی اب مودی کے خلاف تنقیدی مضامین کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے

نتیجہ:
نریندر مودی کی شخصیت کا جو ’ناقابلِ شکست‘ تاثر بھارتی عوام میں برسوں سے قائم تھا، وہ پہلگام جیسے واقعات کے بعد آہستہ آہستہ متزلزل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
عوام اب نہ صرف سوال اٹھا رہی ہے، بلکہ 2014 کے بیانیے کو نئے تناظر میں جانچ رہی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں