جب نہری پانی کی قلت نے سڑکوں کو روک دیا، تو زراعت سے لے کر برآمدات تک سب کچھ پیاسا رہ گیا۔

سندھ میں جاری نہری بحران کے خلاف احتجاجی دھرنوں نے نہ صرف قومی شاہراہوں کو مفلوج کر دیا بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ آلو سے بھرے 250 سے زائد برآمدی کنٹینرز سندھ کے داخلی راستوں پر پھنسے ہوئے ہیں، اور ان کی منزل مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کے ممالک کی منڈیاں تھیں، جہاں اب تعطل کے باعث پاکستان کی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے۔

پاکستان فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق اگر یہ کنٹینرز فوری کراچی پورٹ تک نہ پہنچائے گئے تو جنریٹرز کے بند ہونے، ایندھن کے ختم ہونے اور درجہ حرارت برقرار نہ رہنے کے باعث 15 لاکھ ڈالر سے زائد کا نقصان یقینی ہے۔ یہ صرف برآمد کنندگان کا نہیں بلکہ ان ہزاروں کاشتکاروں کا بھی نقصان ہوگا جنہوں نے خون پسینہ ایک کر کے یہ فصل اگائی۔

دوسری طرف، گڈز ٹرانسپورٹ اونرز ایسوسی ایشن نے اس صورتِ حال کو “قومی المیہ” قرار دیتے ہوئے حکومت سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ ہزاروں گاڑیاں، جن میں سبزیاں، پھل، ادویات اور روزمرہ کی ضروری اشیاء موجود ہیں، کھلے آسمان تلے بغیر پانی، خوراک یا سکیورٹی کے بے یار و مددگار کھڑی ہیں۔ لوٹ مار، پتھراؤ اور ڈرائیورز پر حملوں کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔

معاشی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر یہ بحران فوری طور پر نہ سنبھالا گیا تو اشیائے ضروریہ کی قلت، مہنگائی میں ہوشربا اضافہ، اور برآمدی شعبے میں شدید دھچکا ملک کے لیے نئی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ٹرانسپورٹرز اور برآمد کنندگان کا مطالبہ واضح ہے: راستے بحال کیے جائیں، ڈرائیورز کو تحفظ دیا جائے، اور برآمدی سامان کو بندرگاہ تک پہنچانے کے لیے فوری خصوصی راہداری کا بندوبست کیا جائے۔“پانی وفاق کا نہیں، صوبوں کا ہے” — خرم دستگیر کا اہم بیان، وسائل کی تقسیم پر نئی بحث چِھڑ گئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں