“جب اسٹارز باہر ہوں اور فیصلے سوال بن جائیں — تو کرکٹ میدان سے زیادہ دماغ کی جنگ بن جاتی ہے”

پاکستانی کرکٹ شائقین کی جذباتی کیفیت کو سمجھنا مشکل نہیں۔ ایک طرف وہ پرستار ہیں جو کہتے ہیں:
“ہم وہ میچ دیکھیں ہی کیوں جس میں بابر اعظم نہ ہوں؟”
تو دوسری طرف وہ آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں جو سلیکشن کمیٹی کے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کر رہی ہیں کہ “آخرکار دباؤ کے بغیر ٹیم چُنی گئی۔”

⚖️ فیصلہ درست یا جذباتی؟

بابر اعظم اور محمد رضوان، دونوں نے پاکستان کو کئی مواقع پر فتح دلائی، لیکن حالیہ فارم اور T20 کے جدید تقاضوں کے مطابق ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔
تاہم، انہیں اسکواڈ سے باہر رکھنا عارضی ری سیٹ ہے یا نئی نسل کو موقع دینے کی مستقل پالیسی؟ یہ ابھی واضح نہیں۔

🗣️ عاقب جاوید کا بیان – ریلیف یا دھوکہ؟

سابق کرکٹر اور کوچ عاقب جاوید نے وضاحت کی کہ یہ فیصلہ مستقل نہیں — مگر یہ بات محض شائقین کو مطمئن رکھنے کے لیے ہے یا واقعی مستقبل میں ان کی واپسی کا امکان ہے؟
اس سوال کا جواب آنے والے میچز اور کارکردگی دے گی۔

👥 دباؤ کا بیانیہ – حقیقت یا ڈھال؟

یہ کہنا کہ پی سی بی نے دباؤ میں آ کر فیصلے نہیں کیے — اپنی جگہ درست لگتا ہے، مگر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ دباؤ پرفارمنس کا تھا یا عوامی مقبولیت کا؟
اگر بہترین ٹیم بنانے کے نام پر سلیکشن ہو رہی ہے تو ٹھیک، لیکن اگر “چاہنے والوں کی پسند ناپسند” یا سیاسی اثرورسوخ سے فیصلے ہو رہے ہیں، تو یہ لمحۂ فکریہ ہے۔

بابر اعظم اور محمد رضوان کا اسکواڈ سے اخراج ایک کرکٹنگ فیصلہ ہو سکتا ہے، لیکن جب فیصلے جذبات اور بیانیوں کے درمیان کیے جائیں، تو ان کا اثر میدان سے زیادہ اعتماد، بیلنس اور شفافیت پر پڑتا ہے۔
اصل سوال یہی ہے: کیا ٹیم واقعی میرٹ پر بن رہی ہے یا چہروں کی تبدیلی سے صرف تاثر بدلا جا رہا ہے؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں