“جب چولہے ٹھنڈے ہوں، تو ٹی وی پر گرم اشتہارات عوام کا پیٹ نہیں بھرتے!”

ملک بھر میں مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ آٹا، چینی، دالیں، گھی اور پیٹرول سمیت بنیادی ضروریات کی قیمتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ متوسط اور غریب طبقہ کمر توڑ مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ بازاروں میں سنّاٹا، گھروں میں فاقے اور چہروں پر مایوسی دیکھنے کو ملتی ہے۔

ایسے نازک حالات میں حکومتِ وقت نے بجائے عوامی ریلیف پیکجز یا مہنگائی کے خلاف مؤثر حکمت عملی اختیار کرنے کے، اشتہاری مہمات پر اربوں روپے صرف کر دیے ہیں۔ قومی ذرائع ابلاغ پر دن رات ایسے اشتہارات نشر کیے جا رہے ہیں جن میں ترقیاتی کاموں کے دعوے، پرانی یادداشتیں اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی موجودگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ اشتہارات صرف برانڈنگ کا ذریعہ بن چکے ہیں، جن میں زمینی حقیقتوں سے ہٹ کر ایک خوابناک پاکستان دکھایا جا رہا ہے۔ مگر جب گلی محلے میں بچہ دودھ مانگے اور ماں کے پاس دینے کو پیسے نہ ہوں، تو ایسے اشتہارات ایک زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کی اولین ترجیح عوام کی زندگی آسان بنانا ہونی چاہیے یا ایک سیاسی شخصیت کی تشہیر؟ اگر اربوں روپے میڈیا مہمات کے بجائے صحت، تعلیم، روزگار اور سبسڈی اسکیموں پر لگا دیے جاتے تو شاید عام آدمی کو کچھ ریلیف میسر آتا۔

حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی خدمت، اشتہارات سے نہیں بلکہ عوام کی زندگی میں بہتری لا کر کی جاتی ہے۔ بصورت دیگر، عوامی غصہ سوشل میڈیا سے نکل کر سڑکوں پر بھی آ سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں