“جب دو دیو ایک معاہدے میں بندھ جائیں، تو تیسرا دیو اپنا مستقبلی راستہ تلاش کرتا ہے۔”

گزشتہ ہفتے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان ٹیرف کم کرنے کے معاہدے نے چین کے لیےجے عالمی مینوفیکچرنگ کا مرکز بنے رہنے کا دروازہ دوبارہ کھول دیا، جبکہ انڈیا کے خلاف امیگریشن ٹیرف 27 فیصد پر برقرار رہے۔ اس پیش رفت سے نئی دہلی کے “چین متبادل” کے خواب کو دھچکا لگا، کیونکہ وہ وہ سرمایہ کاری حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا جیسی توقع تھی۔

معاہدے کا پس منظر: امریکہ نے چین پر ٹیرفز کو 145٪ سے گھٹا کر 30٪ کر دیا، مگر انڈیا کو 27٪ پر چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ “متبادل سپلائر” کے طور پر برقرار رہے ۔

ماہرین کا مؤقف: جی ٹی آر آئی کے اجے سریواستو کا کہنا ہے کہ چین سے منتقلی پانے والی ابتدائی اسمبلی لائنز انڈیا میں تو رہ سکتی ہیں، لیکن جدید اور منافع بخش صنعتیں چین کا رخ کر سکتی ہیں۔ نومورا کے تجزیہ کاروں نے بھی تسلیم کیا کہ الیکٹرانکس اور ٹیکسٹائل میں “ٹریڈ ڈائیورژن” کا فائدہ انڈیا کو مل رہا ہے، تاہم وہ مقابلے میں ویتنام اور دیگر ایشیائی ممالک سے پیچھے ہے ۔

ایپل اور ٹرمپ: ایپل نے آئی فون کی امریکہ کے لیے پیداوار چین سے انڈیا منتقل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، مگر صدر ٹرمپ نے ٹم کک کو مشورہ دیا کہ انڈیا میں فیکٹری نہ لگائے کیونکہ “انڈیا دنیا کے سب سے زیادہ ٹیرف لینے والے ممالک میں شامل ہے” ۔

حکومتی اقدامات اور چیلنجز: مودی سرکار نے سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے پالیسی اصلاحات لائیں اور برطانیہ کے ساتھ ٹیکس میں رعائت کا معاہدہ کیا، مگر پیچیدہ کاروباری قوانین اور اجرتی مقابلے نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ویتنام، تھائی لینڈ وغیرہ کی طرف راغب کیا، جس سے انڈیا کی پیداواری شرح پچھلی دو دہائیوں میں محض 15٪ تک رکی ہوئی ہے ۔

اس بدلتے ہوئے منظرنامے میں انڈیا کو اپنی “دنیا کی فیکٹری” بننے کی خواہش پوری کرنے کے لیے ٹیرف کم کرنے، کاروباری آسانیاں بڑھانے اور آزاد تجارتی معاہدوں کو تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں