جب اردو اور پنجابی آسٹریلوی پارلیمان میں گونجیں، تو سمجھیں کہ شناخت نے سرحدیں پار کر لی ہیں!”

بسمہ آصف: کوئنز لینڈ کی پارلیمان میں پہلا مسلمان چہرہ، پاکستانی نژاد خواتین کے لیے نئی راہیں

پاکستانی نژاد بسمہ آصف نے تاریخ رقم کر دی—وہ آسٹریلیا کی ریاست کوئنز لینڈ کی پارلیمان میں منتخب ہونے والی پہلی مسلمان خاتون بن گئیں۔ ان کی کامیابی نہ صرف آسٹریلوی سیاست میں تنوع کی علامت ہے بلکہ دنیا بھر کی مسلم خواتین کے لیے ایک نئی امید اور حوصلے کی مثال بھی۔

بسمہ آصف کے پہلے خطاب کا لمحہ صرف رسمی نہیں تھا بلکہ جذبات سے بھرپور، تاریخی اور تہذیبی طور پر معنی خیز تھا۔ انھوں نے نہ صرف انگریزی میں اپنی بات رکھی، بلکہ اردو اور پنجابی زبان کو بھی استعمال کیا۔ یہ عمل محض لسانی ترجمانی نہیں بلکہ ایک تہذیبی دعویٰ تھا—کہ ہم جہاں بھی جائیں، اپنی زبان، اپنی پہچان اور اپنی جڑیں ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

خطاب میں ثقافت، عقیدہ، اور شکرگزاری کی جھلک

اپنے خطاب میں بسمہ آصف نے جہاں آسٹریلیا کو اپنا گھر تسلیم کیا، وہیں اپنی مسلم شناخت، پاکستانی ورثے اور خاندانی اقدار کو بھی فخر سے بیان کیا۔ اردو اور پنجابی زبان میں کی گئی مختصر بات چیت نے واضح پیغام دیا کہ وہ صرف ایک نمائندہ نہیں بلکہ ایک پُل ہیں—مشرقی اقدار اور مغربی جمہوریت کے درمیان۔

انہوں نے کہا:

“میری کامیابی ان سب کے لیے ہے جو اپنی شناخت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں، اور ان سب کے لیے جو سمجھتے ہیں کہ مذہب یا زبان، رکاوٹ نہیں طاقت ہے۔”

پاکستان اور اوورسیز کمیونٹی کے لیے ایک لمحہ فخر

بسمہ آصف کی کامیابی اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ محنت، تعلیم، اور اصولوں کے ساتھ جمہوری نظام میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔ یہ کامیابی پاکستان میں بھی ایک مثبت پیغام دیتی ہے—کہ خواتین اگر مواقع پائیں، تو وہ ہر میدان میں نمایاں ہو سکتی ہیں۔

صرف انتخاب نہیں، نظریاتی کامیابی

یہ جیت صرف ایک سیٹ نہیں، بلکہ ایک نظریاتی فتح ہے۔ ایک مسلمان، پاکستانی نژاد، اور خاتون کا کسی مغربی جمہوریت میں اس مقام تک پہنچنا، دقیانوسی سوچ کے خلاف سب سے بڑی دلیل ہے۔

بسمہ آصف نے نہ صرف ایک نشست جیتی، بلکہ دل بھی جیت لیے۔ ان کا خطاب، ان کا لہجہ، اور ان کی زبانیں—تینوں اس بات کا اعلان تھیں کہ شناخت دبانے کی نہیں، دکھانے کی چیز ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں