جب امریکہ سے عمران خان کے لیے آواز اٹھنے لگے، تو سمجھیں طوفان آنے والا ہے

جب امریکہ جیسے عالمی طاقت کے دارالحکومت سے عمران خان کے لیے آوازیں بلند ہونے لگیں، تو یہ صرف ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ ایک گہرا پیغام ہوتا ہے—اور وہ پیغام ہے کہ پاکستان کی اندرونی سیاست اب عالمی منظرنامے پر زیرِ بحث آ چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی نژاد امریکی ڈیموکریٹ ڈاکٹر آصف محمود اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور سابق امریکی سفارتکار رچرڈ گرینل کی ملاقات اسی تناظر میں ایک اہم واقعہ کے طور پر ابھری ہے۔

اس ملاقات میں رچرڈ گرینل نے کھل کر عمران خان کی حمایت کی، ان کی گرفتاری کو غیر منصفانہ قرار دیا، اور انہیں نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کا قریبی دوست قرار دیا بلکہ ان کے لیے ٹرمپ کی محبت کا اظہار بھی کیا۔ یہ صرف ذاتی تعلقات کی بات نہیں تھی، بلکہ ایک سیاسی پیغام تھا کہ اگر ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں، تو عمران خان اور پاکستان میں جمہوریت کے لیے ان کی حمایت کھل کر سامنے آ سکتی ہے۔

ڈاکٹر آصف محمود نے نہایت سفارتی انداز میں اس ملاقات کی ویڈیو شیئر کی اور گرینل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کے جغرافیائی و سیاسی تنازعات پر ان کی بصیرت قیمتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے پاکستان میں جمہوری اقدار، انسانی حقوق، اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے گرینل کے مؤقف کو سراہا۔ اس طرح یہ ملاقات صرف ایک فوٹو سیشن نہیں بلکہ عالمی سیاست میں پاکستان کی اہمیت کا عندیہ بھی تھی۔

ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، اور پی ٹی آئی کے حامیوں کے لیے یہ ایک نئی امید کی کرن بن گئی۔ عمران خان کے چاہنے والوں نے اس ملاقات کو ایک بین الاقوامی حمایت کے طور پر دیکھا اور گرینل سمیت امریکی قیادت سے عمران خان کی رہائی کی درخواستیں شروع کر دیں۔ ان کے لیے یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ شاید عالمی دباؤ کے ذریعے وہ وقت قریب ہے جب عمران خان ایک بار پھر آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔

پاکستان کی موجودہ حکومت کے لیے یہ صورت حال یقینی طور پر ایک چیلنج ہے۔ جب ایک سابق امریکی صدر کے قریبی حلقے پاکستان کی داخلی سیاست میں دلچسپی لینے لگیں، تو بین الاقوامی سطح پر حکومت کے بیانیے کو تحفظ دینا مشکل ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب انسانی حقوق، اظہارِ رائے کی آزادی، اور سیاسی انتقام جیسے موضوعات عالمی سطح پر حساسیت اختیار کر چکے ہیں۔

رچرڈ گرینل کی مہم، جو انہوں نے عمران خان کی رہائی کے لیے ٹرمپ کی ممکنہ واپسی سے پہلے ہی شروع کر دی ہے، اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ آئندہ دنوں میں پاکستان کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر نئے چیلنجز اور امکانات دونوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اگر یہ مہم مزید زور پکڑتی ہے اور اسے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں جگہ ملتی ہے، تو یہ پاکستان کی سیاست پر ایک گہرے اثر کا باعث بن سکتی ہے۔

یوں لگتا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری اب صرف ایک قومی معاملہ نہیں رہی—یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بنتی جا رہی ہے، جس کے اثرات پاکستان کی جمہوریت، اس کے عالمی تعلقات، اور اندرونی استحکام پر پڑ سکتے ہیں۔ یہ وقت ہے غور و فکر کا، مکالمے کا، اور سب سے بڑھ کر، انصاف اور جمہوری اقدار کی پاسداری کا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں