“جب صدر اپنی ہی انٹیلیجنس کو غلط قرار دے تو عالمی پالیسی کہاں جائے؟”

2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے (JCPOA) کا مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنی یورینیم افزودگی محدود کی، جبکہ بین الاقوامی معائنہ کاروں کو نگرانی کی اجازت دی گئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو “امریکی مفادات کے خلاف” قرار دیتے ہوئے 2018 میں امریکہ کو اس سے الگ کر دیا اور ایران پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
تنازع کی جڑ:
جنوری 2019 میں امریکی انٹیلیجنس اداروں — بشمول CIA اور نیشنل انٹیلیجنس ڈائریکٹر — نے سینیٹ میں بیان دیا کہ ایران اس وقت جوہری معاہدے کی شرائط پر عمل کر رہا ہے اور اس نے ایٹمی ہتھیار بنانے کی سرگرمی دوبارہ شروع نہیں کی۔
اس بیان کے ردِعمل میں صدر ٹرمپ نے ٹویٹر پر لکھا:
“انٹیلیجنس حکام غیر فعال ہیں۔ وہ غلط ہیں۔ ایران اب بھی ایٹمی خطرہ ہے۔ انہیں اسکول واپس جانا چاہیے۔”
اثرات:
پالیسی میں تضاد: جب صدر اور انٹیلیجنس اداروں کا مؤقف مختلف ہو، تو بین الاقوامی اتحادی اور حریف دونوں الجھن میں پڑ جاتے ہیں۔ امریکی پالیسی غیر واضح اور کمزور دکھائی دیتی ہے۔
ایران پر دباؤ میں کمی: ٹرمپ کے بیانات کے برعکس، جب انٹیلیجنس کہے کہ ایران معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے، تو دنیا ایران پر مزید دباؤ ڈالنے سے ہچکچاتی ہے۔
داخلی انتشار: یہ واقعہ اس بات کی ایک مثال بن گیا کہ ٹرمپ انتظامیہ میں اداروں کی خودمختاری کس حد تک متاثر ہو رہی تھی۔
ماہرین کا ردعمل:
کئی سابق انٹیلیجنس اہلکاروں اور ماہرین نے خبردار کیا کہ صدر کی طرف سے اپنے اداروں کو عوامی طور پر غلط قرار دینا نہ صرف ادارہ جاتی نقصان کا باعث بنتا ہے بلکہ عالمی اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیز اکثر ان کی انٹیلیجنس ٹیم سے ہٹ کر بنی رہیں، جس سے امریکہ کی خارجہ پالیسی میں تضادات پیدا ہوئے۔ ایران کے معاملے میں یہ اختلاف خاص طور پر نمایاں تھا اور اس کے اثرات آج بھی عالمی سیاست پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔