“جہاں خاموشی بولتی ہے اور قدرت خود کو ظاہر کرتی ہے — وہ مقام ہے سرینگر کا پَری محل!”

سرینگر کی بلندیوں پر واقع پَری محل صرف ایک تاریخی عمارت نہیں بلکہ قدرتی حسن، روحانی سکون اور تاریخ کا حسین امتزاج ہے۔ مغل دور کی یہ شاندار یادگار جب آپ کو اپنی طرف بلاتی ہے، تو اس کے ستونوں، محرابوں اور دروازوں سے جھانکتی ماضی کی کہانیاں آپ کے دل میں اترتی چلی جاتی ہیں۔
مگر پَری محل کی اصل کشش وہ منظر ہے جو اس کی بلندی سے نظر آتا ہے — ڈل جھیل کا طلسماتی نظارہ۔ صبح کے وقت جب دھوپ کی نرم کرنیں پہاڑوں سے چھن کر جھیل کی سطح پر پڑتی ہیں، تو وہ منظر ایک خواب جیسا معلوم ہوتا ہے۔ پانی پر ہلکی سی دھند، آہستہ آہستہ تیرتی شِکارائیں، اور پس منظر میں برف پوش پہاڑ… دل خود بخود “سبحان اللّٰہ” کہہ اٹھتا ہے۔
ڈل جھیل کا پانی صرف ایک جھیل نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں پورے کشمیر کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ جھیل کے کنارے لگے چنار کے درخت، پانی پر تیرتے پھولوں کے باغ (floating gardens)، اور مقامی کشمیریوں کی روایتی طرزِ زندگی—سب کچھ گویا ایک زندہ تصویر بن جاتا ہے۔
پَری محل کی بلند فصیلوں سے نیچے نظر ڈالیں تو لگتا ہے جیسے قدرت نے زمین پر ایک جنت بسا دی ہو۔ وہاں کی ہوا میں جو خاموشی ہے، وہ صرف سکون نہیں دیتی بلکہ انسان کے دل کے اندر چھپے جذبات کو بھی جگاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ خود سے، کائنات سے، اور خالق سے قریب تر ہو گئے ہوں۔
پَری محل صرف ایک مقام نہیں، بلکہ ایک کیفیت ہے — جہاں وقت رک جاتا ہے، اور روح کو وہ طمانیت ملتی ہے جو دنیا کے喧嚣 میں کہیں کھو چکی ہوتی ہے۔