“جہاں بجلی نہیں، وہاں سورج امید بن گیا — میاں کنڈی کے بچے سورج سے علم کی روشنی حاصل کر رہے ہیں!”

بلوچستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں میاں کنڈی، جہاں نہ پکی سڑکیں ہیں، نہ جدید اسکول، نہ ہسپتال، اور نہ ہی بجلی کی سہولت — لیکن یہاں کے بچوں کی آنکھوں میں روشنی ہے… وہ روشنی جو سورج سے آتی ہے، اور دل میں بسے خوابوں کو زندہ رکھتی ہے۔
☀️ سورج، جو صرف روشنی نہیں دیتا، زندگی بھی دیتا ہے
پاکستان کے سب سے پسماندہ صوبے بلوچستان کے بہت سے دیہات آج بھی قومی بجلی کے نظام سے محروم ہیں۔ میاں کنڈی انہی میں سے ایک ہے۔ مگر یہاں کے لوگوں نے ہار نہیں مانی۔
انہوں نے قدرت کے سب سے طاقتور تحفے — سورج — سے دوستی کی۔
بچوں نے سولر پینل سے چلنے والی لائٹس میں پڑھنا سیکھا
چھوٹے اسکول سولر انرجی سے روشن کیے گئے
حتیٰ کہ موبائل چارجنگ، پنکھے، اور کچھ علاقوں میں چھوٹے کمپیوٹرز بھی سورج کی مدد سے چلائے جا رہے ہیں
📚 تعلیم، روشنی کے ساتھ جڑی ہوئی
بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جہاں دن کی روشنی ختم ہو جائے، وہاں علم کا سفر بھی رک جاتا ہے۔ لیکن سولر انرجی نے ان بچوں کو اندھیرے میں پڑھنے سے بچا لیا ہے۔
ایک مقامی طالبعلم کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
“پہلے ہم سورج غروب ہونے کے بعد کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ اب ہم رات کو بھی پڑھ سکتے ہیں، خواب دیکھ سکتے ہیں۔”
💪 لوکل کمیونٹی اور اداروں کی کوششیں
کچھ این جی اوز، مقامی تنظیمیں، اور تعلیمی رضاکاروں نے مل کر میاں کنڈی جیسے دیہات میں
سولر لیمپس تقسیم کیے
چھوٹے سولر سسٹم لگوائے
اور طلبا کے لیے خصوصی کلاسز شروع کیں
یہ سب اس امید پر کیا گیا کہ “اگر روشنی پہنچ گئی، تو ترقی بھی پہنچے گی۔”
🌍 ماحولیاتی تحفظ اور سستے حل
سولر انرجی کا استعمال نہ صرف سستا ہے بلکہ ماحول دوست بھی۔
کوئی ایندھن درکار نہیں
نہ دھواں، نہ آلودگی
صرف صاف، خاموش، پائیدار روشنی
میاں کنڈی کے بچے سورج کی روشنی سے صرف اپنے کمرے نہیں، اپنی تقدیر روشن کر رہے ہیں۔
یہ وہ پاکستان ہے جو کم نظر نہیں، بلکہ نئی نظر سے آگے بڑھنا جانتا ہے۔
جہاں غربت، محرومی، اور پسماندگی کے باوجود ہمت، امید اور جدت سے راستے نکالے جا رہے ہیں۔
اگر میاں کنڈی جیسے گاؤں میں بچے سورج سے علم حاصل کر سکتے ہیں، تو سوچئے اگر ہم سب مل کر ان کی مدد کریں، تو یہ بچے کل کو خود بلوچستان کی، اور پاکستان کی، روشنی بن سکتے ہیں۔