“رکاوٹ کون ڈال رہا ہے؟”: غزہ میں امداد پر اسرائیل اور اقوامِ متحدہ آمنے سامنے

غزہ میں انسانی بحران اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے، اور اب امداد کی تقسیم کے معاملے پر اسرائیل اور اقوامِ متحدہ کے درمیان لفظی جنگ شدت اختیار کر گئی ہے۔
“غزہ میں بھوک کا بحران، ذمہ داری کا سوال: اسرائیل اور اقوامِ متحدہ آمنے سامنے”
اسرائیلی حکومت نے حالیہ بیانات میں اقوامِ متحدہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کی مؤثر تقسیم میں ناکام رہی ہے، اور بعض صورتوں میں امداد کو روکنے یا تاخیر سے پہنچانے کا باعث بنی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے “دروازے کھول رکھے ہیں” لیکن اقوامِ متحدہ کی “منتظماتی ناکامی” امدادی کاموں میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا:

“ہم ہر روز سینکڑوں ٹرکوں کو غزہ جانے کی منظوری دیتے ہیں، لیکن اقوامِ متحدہ کی لاجسٹک کمزوریوں کے باعث وہ امداد وہاں نہیں پہنچ پاتی جہاں ضرورت ہے۔”

اقوامِ متحدہ کا مؤقف:
اقوامِ متحدہ، بالخصوص ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) اور اوچا (OCHA) نے اسرائیلی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی کی صورتحال، اسرائیلی منظوریوں میں تاخیر، اور نقل و حرکت پر پابندیاں ہیں، جو امداد کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

اوچا کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق:

“ہم ہر دستیاب راستے اور اسرائیلی منظوری کے تحت امداد پہنچانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، لیکن جب قافلے پر حملہ ہوتا ہے یا داخلے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی، تو ہم کیا کریں؟”

موجودہ زمینی صورتحال:
غزہ میں لاکھوں افراد خوراک، ادویات اور صاف پانی سے محروم ہیں۔

امدادی قافلوں پر حملے، سرحدی ناکے بند ہونے اور انٹرنیٹ و بجلی کی بندش نے امدادی سرگرمیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ نے حالیہ دنوں میں خبردار کیا کہ اگر فوری رسائی نہ ملی تو غزہ قحط کی طرف جا سکتا ہے۔
امریکہ، یورپی یونین، اور بعض عرب ممالک نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر امداد کی بلا روک ٹوک رسائی کو یقینی بنائے۔ ساتھ ہی اقوامِ متحدہ کو بھی اپنی امدادی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی اپیل کی جا رہی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں