تیونس میں قیص سعید کی کامیابی اور پاکستان و مسلمان دنیا کے لیے اس کے معنی

تیونس کا امتحانِ جمہوریت: قیص سعید کی دوبارہ صدارت اور اس کے مضمرات
تعارف: عوام کی آواز اور سیاسی مایوسی
تیونس، جس نے 2011 کی عرب بہار کے دوران جمہوری تبدیلی کی امید کی علامت بن کر ابھرا، حالیہ انتخابات نے دکھایا ہے کہ عوام تبدیلی کی کیفیت میں مگر اختلافی تشویشات کے ساتھ کھڑی ہیں۔ صدر قیص سعید نے 6 اکتوبر 2024 کو صدارتی الیکشن میں تقریباً 90.7 فیصد ووٹ حاصل کیے، مگر وہ فتح ایسی صورت حال میں آئی جب ووٹر ٹرن آؤٹ نہایت کم رہا — تقریباً 28‑29 فیصد۔ یہ کم شرکت عوام میں جمہوری عمل سے عدم اعتماد کی علامت ہے۔
انتخابات کا تناظر: غیر معمولی انتخابی فضا
-
الیکشن سے قبل سینکڑوں امیدواروں نے حصہ لینے کی خواہش ظاہر کی، مگر انتخابی اتھارٹی نے متعدد امیدواروں کو مسترد کیا یا انتخابی عمل سے باہر رکھا۔ بعض بڑے سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی حراست یا قانونی رکاوٹیں بنائی گئیں، جس سے مقابلہ محدود ہوا۔
-
صدر قیص سعید نے 2021 میں پارلیمان تحلیل کی، سینئر عدالتوں کی خود مختاری کم کی، اور اختیارات صدر کے ہاتھ مرکوز کیے، جس پر عالمی انسانی حقوق تنظیموں اور تجزیہ کاروں نے شدید تشویش کا اظہار کیا۔
کارکردگی کی تصویر: دعوے اور حقیقی چیلنجز
مثبت پہلو
-
قیص سعید کی حکومت نے کرپشن کے خلاف مؤثر مہم چلائی، اور بڑی حد تک عوام میں “نیکی کا وعدہ” محسوس کیا گیا کہ وہ پرانی سیاسی ذہنیت (الٹی سیاسی، مفرور مفادات وغیرہ) سے چھٹکارا دے گی۔
-
بعض معاملات میں عدالتی فیصلے اور قانونی اصلاحات نے امید جگائی کہ ریاستی ادارے مزید شفافیت کی طرف جائیں گے۔
مسائل و تنقید
-
انتخابات کی شفافیت پر سوالات ہیں: بعض مخالفین نہ صرف حراست میں ہیں بلکہ انہیں مؤثر انتخابی مہم چلانے کا موقع نہیں ملا۔ یہ معاشرتی اور سیاسی تناؤ کی ایک بڑی وجہ ہے۔
-
جمہوری اداروں کا کمزور ہونا: عدلیہ، انتخابی اتھارٹی، میڈیا اور حزب اختلاف کی آوازیں محدود ہو گئی ہیں۔ یہ وہ ستون ہیں جو جمہوریت کو مستحکم کرتے ہیں، اور اگر وہ خاموش ہوں، تو اقتدار کا ارتکاز مزید ہو گا۔
-
اقتصادی بحران: مہنگائی کا دباؤ، روزگار کا فقدان، اور زندگی کی بنیادی ضروریات کے بڑھتے ہوئے اخراجات عوامی پریشانی کو مزید بڑھا رہے ہیں۔
آئندہ امکانات اور خطرات
-
قیص سعید کے لیے یہ دورِ صدارت ایک چیلنج کا دور ہو گا: عوامی توقعات کو پورا کرنا، بدعنوانی پر قابلِ مشاہدہ اور مؤثر کنٹرول، اور بنیادی خدمات میں بہتری۔
-
جمہوری اداروں کا بحال ہونا ضروری ہے: اگر انتخابی اتھارٹی، عدلیہ، سیاسی جماعتیں اور آزادی اظہار کو دوبارہ موثر کردار ملے تو عوامی اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔
-
بین الاقوامی تعلقات کا لحاظ: انسانی حقوق کے دعوے، مبصرین کی تشویشات، اور بیرونی امداد و تعاون پر اثرات ممکن ہیں۔ اگر طرز حکومت عوامی مفادات سے منحرف ہو جائے، تو بین الاقوامی دباؤ اور تنقید کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے۔
قیص سعید کی فتح کیا ثابت کر رہی ہے؟
قیص سعید کی دوبارہ صدارت یہ بتاتی ہے کہ عوام میں تبدیلی اور احتساب کی خواہش زندہ ہے۔ مگر یہ فتح ایک وقتی عہد نہیں، بلکہ ایک آزمائش ہے کہ آیا قیادت عوامی توقعات، شفافیت، اور جمہوری اصولوں کے مطابق کام کرے گی یا اقتدار کو مضبوط کرتے ہوئے مخالف آوازوں کو دبائے گی۔
تیونس کا یہ مرحلہ مسلم دنیا کے لیے ایک مثال ہے — تبدیلی ممکن ہے، مگر اس کی قیمت ادارتی آزادی، سیاسی شرکت، اور شہری حقوق کی حفاظت پر ادا کی جائے گی۔ اگر یہ ستون کمزور ہوں تو عوامی مایوسی غنودگی بن جائے گی، اور جمہوری امیدیں ماضی کا حصہ۔