“دریائے سندھ کی طغیانی اور کوہِ کیرتھر کی بارشیں—کچے کا علاقہ خطرے میں، لاکھوں زندگیاں بے یقینی کا شکار!”

سندھ میں سیلابی خطرات بڑھ گئے، لاکھوں افراد متاثر ہونے کا خدشہ
سندھ ایک بار پھر قدرتی آفت کے دہانے پر کھڑا ہے۔ دریائے سندھ میں بالائی علاقوں سے آنے والا سیلابی ریلا گڈو بیراج پر دباؤ بڑھا رہا ہے، جس کے نتیجے میں کشمور، کوٹ مٹھن، اور گرد و نواح کے کچے کے علاقے خطرے کی زد میں آ چکے ہیں۔ بالخصوص گڈو بیراج کے مقام پر پانی کی تیزی سے آمد اور کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں بارشوں نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
کچے کے مکین ایک بار پھر بے گھر ہونے پر مجبور
کوٹ مٹھن اور کشمور کے نچلے علاقوں میں پانی کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے کچے کے درجنوں دیہات زیرِ آب آنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ انتظامیہ نے متاثرہ علاقوں کے مکینوں کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونے کی ہدایت دی ہے، جبکہ کئی خاندان پہلے ہی عارضی کیمپوں یا رشتہ داروں کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
بچوں، خواتین، بوڑھوں اور بیماروں کے ساتھ نکلنے والے یہ لوگ ایک بار پھر سوال کر رہے ہیں:
“کیا ہمیں ہر سال اپنا گھر بار چھوڑنا پڑے گا؟”
حکومتِ سندھ: انتظامات مکمل ہونے کا دعویٰ
صوبائی وزیر آب پاشی جام خان شورو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:
“سندھ میں کوئی بند نہیں توڑا جائے گا۔ حکومت نے سپر فلڈ سے نمٹنے کے لیے مکمل تیاری کر رکھی ہے۔”
ان کے مطابق، تمام متعلقہ محکموں کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے، اور امدادی ٹیمیں نچلے علاقوں میں پہنچ چکی ہیں۔ وزیر موصوف نے یہ بھی انکشاف کیا کہ تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد اس ممکنہ سیلاب سے متاثر ہو سکتے ہیں، لیکن حکومت ہر ممکن اقدام کر رہی ہے تاکہ جانی نقصان نہ ہو۔
کھیرتھر کے ندی نالے بپھر گئے
کوہِ کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں مسلسل بارشوں کے باعث ندی نالوں میں طغیانی آ گئی ہے، جس نے سندھ کے مغربی علاقوں میں مزید خطرات کو جنم دیا ہے۔ یہ طغیانی پانی آخرکار دریائے سندھ میں شامل ہو کر مزید علاقوں کو متاثر کر سکتی ہے، خاص طور پر وہ علاقے جہاں بندوں کی حالت پہلے ہی کمزور ہے۔
گڈو بیراج: ایک نکتہ، کئی خطرات
گڈو بیراج پر پانی کی مسلسل آمد نے مقامی انتظامیہ کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اوپری پنجاب سے آنے والے سیلابی ریلوں کی رفتار اور حجم میں اضافہ ہوا ہے، اور گڈو بیراج کے ذریعے یہ پانی سندھ کے نشیبی علاقوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔
کشمور، گھوٹکی، شکارپور، اور جیکب آباد کے کچے کے علاقے اس وقت سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں۔
نقل مکانی کا عمل — مسائل کی نئی لہر
محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کرنے والوں کو نہ صرف اپنے گھروں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے بلکہ:
-
طبی سہولیات کی کمی
-
پینے کے صاف پانی کا بحران
-
خیموں، کمبلوں اور بنیادی سامان کی قلت
-
مواصلاتی نظام میں رکاوٹیں
-
بچوں کی تعلیم کا تعطل
جیسے مسائل بھی ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔
ایک متاثرہ خاتون زرینہ بی بی کہتی ہیں:“کراچی میں بارش ہو یا تعلیم، دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے – کیا یہی ہے سندھ حکومت کی کارکردگی؟”
“ہم ہر سال اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگتے ہیں، لیکن نہ حکومت کو ہماری یاد آتی ہے، نہ ہمیں تحفظ ملتا ہے۔”
سیلاب کے ممکنہ اثرات — ایک نظر میں
پہلو | تفصیل |
---|---|
متاثرہ اضلاع | کشمور، گھوٹکی، شکارپور، کوٹ مٹھن، جیکب آباد |
ممکنہ متاثرہ آبادی | 1.5 سے 2 لاکھ افراد |
شدید متاثرہ علاقے | دریائے سندھ کے کچے کے علاقے، کیرتھر ندی نالوں کے کنارے |
انتظامیہ کا مؤقف | مکمل تیاری، بند نہیں توڑے جائیں گے |
موجودہ اقدامات | ریسکیو ٹیمیں متحرک، نقل مکانی کی اپیل |
درپیش چیلنجز | پانی کی تیز رفتار، ناکافی کیمپ سہولیات، خراب انفرااسٹرکچر |
کیا سپر فلڈ کے لیے ہم واقعی تیار ہیں؟
وزیر آب پاشی کے بیانات حوصلہ افزا تو ضرور ہیں، لیکن زمینی حقیقتیں کچھ اور کہانی سنا رہی ہیں۔ کئی علاقوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق:
-
بندوں کی حالت مخدوش ہے
-
فلڈ کیمپ ناکافی اور غیر فعال ہیں
-
وارننگ سسٹم کمزور ہے
-
ریسکیو کے لیے مناسب کشتیاں اور گاڑیاں موجود نہیں
اگر سپر فلڈ جیسی صورتحال واقعی پیدا ہو گئی، تو سندھ کی تاریخ کا ایک اور المناک باب رقم ہو سکتا ہے۔
ماضی کی غلطیوں سے سبق؟
2022 اور 2010 کے سیلاب سب کو یاد ہیں، جب سندھ کے لاکھوں افراد پانی میں گھر گئے، مہینوں بے گھر رہے، اور بنیادی سہولتوں سے محروم رہے۔ تب بھی دعوے یہی تھے: “ہم تیار ہیں”، لیکن زمینی صورتحال نے کچھ اور ہی کہانی سنائی۔
کیا اس بار حکومت واقعی بہتر انداز میں تیار ہے؟
یا یہ دعوے صرف میڈیا بیانات تک محدود ہیں؟
عوام کے لیے اہم ہدایات
-
نشیبی علاقوں میں مقیم افراد فوری طور پر محفوظ مقام کی طرف منتقل ہو جائیں
-
مقامی انتظامیہ سے رابطے میں رہیں
-
شناختی دستاویزات، بنیادی سامان، اور ضروری ادویات ساتھ رکھیں
-
بچوں، خواتین، اور بزرگوں کو پہلے نکالیں
-
افواہوں پر کان نہ دھریں، تصدیق شدہ اطلاعات پر عمل کریں
آزمائش کی ایک اور گھڑی
دریائے سندھ کا سیلاب، کیرتھر کی طغیانی، اور حکومت کی تیاریاں — یہ سب مل کر سندھ کے لاکھوں عوام کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکے ہیں۔ متاثرین ایک بار پھر امداد، تحفظ، اور توجہ کے منتظر ہیں۔
یہ وقت صرف دعووں کا نہیں، عملی اقدامات کا ہے۔ ورنہ پانی ایک بار پھر نہ صرف زمینیں بہا لے جائے گا، بلکہ حکومتی وعدوں کا بھرم بھی۔