دوحہ پر اسرائیلی حملے کے بعد قطری وزیراعظم کی نیویارک میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات

اسرائیل کا قطر میں حماس مذاکرات کاروں پر حملہ صرف ایک ملک پر نہیں، بلکہ امن کے ہر امکان، ہر میز، اور ہر سفارتی کوشش پر

دوحہ پر اسرائیلی حملے کے بعد قطری وزیراعظم کی نیویارک میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات: مشرقِ وسطیٰ ایک نئے سفارتی طوفان کی زد میں؟


تعارف: معمولی واقعہ نہیں، بڑا اشارہ

جب بھی مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بگڑتا ہے، اثر صرف فلسطین، اسرائیل یا ایران تک محدود نہیں رہتا — بلکہ ہر وہ ملک جو علاقائی سیاست میں ایک فعال کردار ادا کرتا ہے، براہِ راست یا بالواسطہ متاثر ہوتا ہے۔ حالیہ واقعے میں قطر، جو کہ خود کو ایک “بیلنسڈ پاور بروکر” کے طور پر پیش کرتا آیا ہے، اب ممکنہ طور پر ایک نئے محاذ کا سامنا کر رہا ہے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مبینہ اسرائیلی کارروائی اور اس کے بعد قطری وزیراعظم کی نیویارک میں امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے فوری ملاقات، ایک غیرمعمولی ترتیب ہے۔ یہ دونوں واقعات بظاہر الگ نظر آ سکتے ہیں، مگر ان کے بیچ کا ربط ایک بڑی عالمی چال کا حصہ ہو سکتا ہے۔


دوحہ پر حملہ: اسرائیلی پالیسی میں نئی جہت؟

اسرائیل کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ جہاں کہیں بھی وہ “اپنے خلاف خطرہ” محسوس کرے، وہاں کارروائی کرنے میں دیر نہیں کرتا — چاہے وہ شام ہو، لبنان، غزہ یا اب قطر۔

 اگر واقعی اسرائیل نے قطر کی حدود میں کسی ہدف کو نشانہ بنایا ہے، تو یہ پہلا موقع ہوگا کہ:

  • ایک خلیجی ملک کی خودمختاری کو براہِ راست چیلنج کیا گیا۔

  • اور وہ بھی کسی ایسے ملک کے خلاف جو عرب دنیا میں نسبتاً آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے۔

یہ کارروائی بظاہر چھوٹی ہو سکتی ہے (مثلاً ایک محدود ڈرون حملہ یا سائبر آپریشن)، لیکن اس کا سیاسی اور سفارتی وزن بہت زیادہ ہے۔


قطر کی پوزیشن: نرمی اور خودمختاری کا توازن

قطر کئی دہائیوں سے ایک پیچیدہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے:

  • امریکہ کا قریبی اتحادی (العدید ائیر بیس میں ہزاروں امریکی فوجی)

  • ایران کے ساتھ متوازن تعلقات

  • فلسطینی کاز کا کھلا حمایتی

  • طالبان سے مذاکرات کا میزبان

  • اور الجزیرہ جیسے آزاد میڈیا کی موجودگی

یہ تمام پہلو قطر کو خطے میں ایک منفرد مقام دیتے ہیں، لیکن یہی مقام اسے بعض اوقات طاقتور ملکوں کی آنکھ میں کھٹکنے لگتا ہے — خاص طور پر اسرائیل اور اس کے پشت پناہ مغربی عناصر کی۔


ٹرمپ سے ملاقات: خفیہ مفاہمت یا پبلک سگنل؟

قطری وزیراعظم کی نیویارک میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات بظاہر ایک غیر رسمی یا “ڈپلومیٹک روٹین” لگ سکتی ہے، لیکن حالات اور ٹائمنگ کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں:

ملاقات کی اہم جہتیں:

  • ٹرمپ 2024 کی صدارتی دوڑ میں مضبوط امیدوار ہیں۔ قطر کی جانب سے پہلے سے ان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا ایک “سفارتی انشورنس پالیسی” ہو سکتی ہے۔

  • قطر یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر موجودہ بائیڈن انتظامیہ غیر مؤثر رہی، تو وہ ٹرمپ کی ممکنہ واپسی پر بھی مضبوط تعلقات قائم رکھے گا۔

  • یہ ملاقات اسرائیل کو ایک پیغام بھی ہو سکتی ہے: “قطر تنہا نہیں”۔


عرب دنیا کی خاموشی: خطرناک رجحان؟

سب سے قابل غور بات یہ ہے کہ اسرائیلی حملے پر اکثر عرب ممالک خاموش ہیں۔ نہ کوئی مذمتی بیان، نہ کوئی ہنگامی اجلاس۔

یہی خاموشی 2006، 2014، 2021 اور 2023 میں غزہ پر حملوں کے وقت بھی دیکھنے کو ملی، اور اب قطر جیسا ملک بھی اس خاموشی کا شکار بن رہا ہے۔

سوال یہ ہے:

  • کیا اسرائیل کو اب کھلی چھوٹ مل چکی ہے؟

  • کیا قطر بھی ایران، حماس یا حزب اللہ جیسے زمرے میں ڈال دیا گیا ہے؟

  • اور اگر ایسا ہے، تو کیا باقی عرب دنیا اگلی باری کا انتظار کر رہی ہے؟


عالمی طاقتوں کی غیر جانبداری: مفاد یا مفلسی؟

امریکہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ — سب خاموش ہیں۔

  • امریکہ نے کوئی ردعمل نہیں دیا

  • یورپی میڈیا میں خبر کو نمایاں کوریج نہیں ملی

  • یو این نے اسے نوٹس تک نہیں کیا

یہ وہی طاقتیں ہیں جو “قواعد پر مبنی عالمی نظام” کی داعی بنتی ہیں۔ مگر جب بات اسرائیل یا اس کے اتحادیوں کی آتی ہے، تو ان کا “قانون” اور “اخلاقیات” دونوں خاموش ہو جاتے ہیں۔


کیا یہ ایک نئی مشرقِ وسطیٰ پالیسی کی شروعات ہے؟

یہ واقعہ اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ:

  • خطے میں اسرائیل کی جارحیت کا دائرہ بڑھ رہا ہے

  • قطر، ترکی، ایران جیسے ممالک اگلا ہدف ہو سکتے ہیں

  • عرب دنیا مزید تقسیم کا شکار ہے

  • اور امریکہ کی پالیسی بھی مکمل جانبداری کی طرف بڑھ رہی ہے


 قطر کا امتحان، مشرق وسطیٰ کا موڑ

دوحہ پر اسرائیلی حملہ اور ٹرمپ سے ملاقات صرف ایک سفارتی لمحہ نہیں — یہ خطے کے سفارتی اور عسکری مستقبل کی سمت متعین کرنے والا واقعہ ہو سکتا ہے۔

اگر قطر اس پر خاموش رہتا ہے، تو یہ ایک نیا خطرناک پریسیڈنٹ بنے گا۔ اگر وہ جارحانہ جواب دیتا ہے، تو خطے میں کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔

عالمی طاقتوں، خاص طور پر عرب لیگ اور او آئی سی، کو اب یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ خاموش تماشائی بنے رہنا چاہتے ہیں یا خودمختاری اور علاقائی استحکام کے لیے متفقہ مؤقف اپنانا چاہتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں