عمران ریاض خان نے پاکستان چھوڑا ہے کیونکہ اُنہیں اپنی جان اور بولنے کی آزادی پر سنگین خطرات محسوس ہوئے۔

imran khan niazi news

عمران ریاض خان کا ملک چھوڑنے کا فیصلہ: ایک جائزہ

عمران ریاض خان، پاکستان کے معروف اینکر، صحافی، اور یوٹیوبر، جنہوں نے اپنی بے باک صحافت، تحقیقاتی رپورٹس، اور سچ بولنے کے انداز سے لاکھوں ناظرین کا اعتماد حاصل کیا، اب ملک سے باہر جا چکے ہیں۔ ان کے ملک چھوڑنے کی خبر نے ملک بھر میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے: کیا پاکستان میں صحافت محفوظ ہے؟


صحافت کی قیمت: دباؤ، مقدمات اور دھمکیاں

عمران ریاض کے خلاف پچھلے چند برسوں میں کئی مقدمات درج کیے گئے۔ ان میں بغاوت، ریاستی اداروں کے خلاف بولنے، اور معاشرتی نفرت پھیلانے جیسے سنگین الزامات شامل تھے۔ وہ کئی بار گرفتار بھی ہوئے، اور 2023 میں ایک طویل عرصے کے لیے لاپتا بھی رہے۔ جب وہ دوبارہ منظرِ عام پر آئے، تو وہ کافی خاموش نظر آئے۔ اُن کے قریبی ذرائع کے مطابق، اُنہیں مسلسل دھمکیاں دی جا رہی تھیں، اور ان کے اہلِ خانہ کو بھی ہراساں کیا گیا۔


صحافت پر قدغن: یوٹیوب چینل، سوشل میڈیا اور سنسرشپ

عمران ریاض خان نے پاکستان میں مین اسٹریم میڈیا سے علیحدگی کے بعد یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر اپنی صحافت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اُن کے یوٹیوب چینل پر لاکھوں سبسکرائبرز ہیں، لیکن اس پلیٹ فارم پر بھی انہیں دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی متعدد ویڈیوز ڈیلیٹ کروائی گئیں، چینل کو ڈی مونیٹائز کیا گیا، اور الگورتھمز کے ذریعے ان کی رسائی محدود کی گئی۔ ان تمام اقدامات نے ان کے کام کو متاثر کیا اور ان پر واضح پیغام دیا گیا کہ سچ بولنا آسان نہیں۔


ذاتی سلامتی کو لاحق خطرات

عمران ریاض کے مطابق، پاکستان میں ان کی زندگی خطرے میں تھی۔ وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ انہیں “اٹھا لیا جا سکتا ہے”، قتل کیا جا سکتا ہے، یا ایسی جگہ بھیجا جا سکتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف صحافت کی وجہ سے وہ دشمنی کا نشانہ بنے۔ یہ صورتحال اتنی پیچیدہ ہو چکی تھی کہ ان کے لیے معمول کی زندگی گزارنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔


“دُنکی روٹ” سے روانگی: کیوں اور کیسے؟

عمران ریاض نے ملک چھوڑنے کے لیے باضابطہ امیگریشن کے بجائے “دُنکی روٹ” اختیار کیا۔ یہ ایک غیر رسمی اور غیر قانونی راستہ ہے جسے اکثر لوگ یورپ یا دیگر ممالک میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس راستے کو اختیار کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ حکام کی نظروں سے بچ کر نکلنا چاہتے تھے تاکہ کوئی بھی ان کی روانگی میں رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ بعد ازاں، وہ لندن پہنچے جہاں سے انہوں نے کچھ غیر رسمی بات چیت اور بیانات کے ذریعے اپنی موجودگی کی تصدیق کی۔


فیملی کا بیرون ملک منتقل ہونا

اطلاعات کے مطابق عمران ریاض کی فیملی پہلے ہی بیرونِ ملک منتقل ہو چکی تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے پہلے ہی اپنے مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی کر لی تھی۔ ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اپنی فیملی کی حفاظت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، اور یہی وجہ تھی کہ جب دباؤ حد سے بڑھ گیا، تو انہوں نے بھی ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔


بیرونِ ملک سے صحافت جاری رکھنے کا عزم

عمران ریاض خان نے اپنے حالیہ بیانات میں واضح کیا ہے کہ وہ صحافت ترک نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی پاکستان کے مسائل، عوام کی آواز، اور ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے — فرق صرف اتنا ہوگا کہ اب وہ یہ سب ایک محفوظ جگہ سے کریں گے۔ ان کا عزم ہے کہ وہ سچ بولتے رہیں گے، چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا بیرونِ ملک۔


آزادی اظہار پر سوالیہ نشان

عمران ریاض خان کا ملک چھوڑنا صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک بڑے سوال کو جنم دیتا ہے: کیا پاکستان میں آزادیِ اظہار واقعی موجود ہے؟ کیا ایک صحافی سچ بول سکتا ہے بغیر کسی خوف کے؟ کیا اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کا ماحول موجود ہے؟ ان سوالات کا جواب صرف عمران ریاض کی کہانی سے نہیں، بلکہ کئی دیگر صحافیوں، سوشل ورکرز، اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے تجربات سے بھی ملتا ہے۔


مستقبل کی راہ: کیا وہ واپس آئیں گے؟

عمران ریاض خان نے عندیہ دیا ہے کہ اگر حالات بہتر ہوئے، اگر بولنے کی آزادی بحال ہوئی، اور اگر انہیں انصاف کی ضمانت دی گئی، تو وہ پاکستان واپس آ سکتے ہیں۔ تاہم، فی الحال وہ بیرونِ ملک رہ کر ہی اپنے مشن کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے مداح ان کی واپسی کے منتظر ہیں، لیکن ان کی موجودہ صورتحال ملک کے اندرونی حالات کی ایک تلخ تصویر پیش کرتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں