چین کی مخالفت اور بیگرام ائربیس پر امریکی دعوے

بیگرام ایئر بیس، امریکہ کا دعویٰ اور چینی ردِعمل

. پسِ منظر: بیگرام ایئر بیس کی اہمیت

  • بیگرام ایئر بیس افغانستان کے مرکزی صوبے پروان میں واقع ہے، اور تاریخی طور پر امریکہ کا بڑا فوجی اور لاجسٹک مرکز رہا ہے، خاص طور پر 9/11 کے بعد کی طویل جنگ کے دوران۔

  • ۲۰۲۱ میں امریکی انخلا کے بعد طالبان اس بیس پر قابض ہو گئے، جس کی وجہ سے اس کی عسکری اہمیت کم ہوئی مگر اس کی جغرافیائی پوزیشن اور سڑک، فضائی رسائی کے سہولیات نے اسے اب بھی اسٹریٹجک مقام عطا کیا ہوا ہے۔

  • بیگرام کا ایک بڑا رن وے ہے جس سے بڑے طیارے، بوجھ بردار طیارے اور فوجی آپریشنز کی نقل و حمل ممکن ہے — یہی وجہ ہے کہ امریکہ دوبارہ کنٹرول کے امکانات تلاش کر رہا ہے۔

. ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف

  • صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکہ “بیگرام واپس لینا چاہتا ہے”، جس کی بنیادی دلیل بیس کی چین کے قریب پوزیشن اور سلامتی، نگرانی اور دفاعی نقطہ نظر سے اسے اہم قرار دینا ہے۔

  • امریکہ کا دعویٰ ہے کہ یہ بیس “وہ موقع تھا جو امریکی انخلا کے وقت چھوڑ دیا گیا” اور اب وہ اسے بحال کرنا چاہتا ہے تاکہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھا جائے، خصوصاً چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے تناظر میں۔

  • کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کی خاطر اقتصادی اور سیاسی لین دین، قیدیوں کی رہائی اور دیگر تعاون کے پہلو زیرِ غور ہیں، البتہ فوجی موجودگی کا معاملہ ابھی سختی سے رد کیا گیا ہے۔


. افغان موقف اور طالبان کی مخالفت

  • افغان وزارت خارجہ اور طالبان حکام نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی بھی امریکی فوجی موجودگی کو قبول نہیں کریں گے، چاہے وہ بیگرام ہو یا دیگر جگہیں۔ افغانستان کا مؤقف ہے کہ بیرونی فوجی پاور کی واپسی ملک کی خود مختاری، سلامتی اور جغرافیائی حکمرانی کے منافی ہے۔

  • امریکی دعوے، خصوصاً چین کی موجودگی یا سرگرمیوں کے حوالے سے الزامات کو طالبان نے مسترد کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بیگرام مکمل طور پر ان کی نگرانی میں ہے اور کسی بیرونی طاقت کو اس پر کنٹرول دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


. چین کا ردِعمل: استحکام کی خواہش اور تناؤ سے لاعلمی

  • چینی وزارتِ خارجہ نے بیگرام پر دوبارہ امریکی دعوے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدامات خطے میں تناؤ کو فروغ دیں گے، جس کی عوامی امنگیں نہیں ہوتیں۔ چین نے واضح کیا کہ کسی بھی قسم کا فیصلہ افغان عوام اور حکومت کی رضامندی سے ہونا چاہیے۔

  • چین نے زور دیا ہے کہ افغانستان کی “استقلال، خود مختاری اور علاقائی سالمیت” کا احترام کیا جائے، اور یہ کہ بیرونی فوجی مداخلت امن کے راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہے۔


. چیلنجز و پیچیدگیاں

  • لسانی و فنی مرمت: بیگرام بیس اب فعال فوجی بیس نہیں ہے؛ اس کی سہولیات، انفراسٹرکچر، رسد کے راستے اور حفاظت کا نظام کافی عرصے بعد دوبارہ فعال کرنے میں وقت اور وسائل درکار ہوں گے۔

  • علاقائی ردعمل: پاکستان، ایران، چین اور روس جیسے پڑوسی ممالک کو یہ دیکھنا ہوگا کہ امریکہ کی واپسی علاقائی توازن پر کیا اثر ڈالے گی، اور اس سے خطے میں سیاسی و عسکری کشیدگیاں بڑھ سکتی ہیں۔

  • سپر ریسپانسبلیٹی اور حفاظت: بیگرام ایک بڑا ٹھیکّہ ہے جسے ممکنہ حملے، عسکری مداخلت، دہشت گردانہ کارروائیوں کی روک تھام، اور مقامی ردعمل—سب کو مدنظر رکھتے ہوئے محفوظ کرنا پڑے گا۔

. ممکنہ نتائج اور مستقبل کی راہیں

  • اگر امریکہ واقعی بیگرام واپس حاصل کرے، تو یہ خطے میں اس کی حکمتِ عملی اور طاقت کے اظہار کا شدت سے مشاہدہ ہوگا — اور چین اسے موازنہ اور ردعمل کے امکانات کے تناظر میں دیکھے گا۔

  • افغانستان کی حکومت یا طالبان کی قیادت کے پاس اختیار ہے کہ وہ معاہدے کی شرائط طے کریں: فوجی موجودگی کی حد، رسائی، کنٹرول اور مقامی مفادات کی حفاظت۔

  • خطے میں استحکام کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام فریقین عسکری موجودگی کے بجائے سفارتی مذاکرات، اقتصادی تعاون، اور مقامی حکومت کی قیادت کو ترجیح دیں۔

مکمل طور پر دیکھا جائے تو چین کا ردِعمل واضح ہے: امریکہ کے دعوے کو تناؤ بڑھانے والی کوشش سمجھا جا رہا ہے، اور افغانستان کی خود مختاری اور عوامی امنگیں مقدم ہیں۔ بیگرام کا معاملہ محض فوجی اور اسٹریٹجک مفاد نہیں، بلکہ علاقائی سیاست، سلامتی مفادات اور بین الاقوامی تعلقات کی نئی حکمتِ عملی ہے۔ اس منظرنامے میں، امریکہ کا بیگرام دوبارہ حاصل کرنے کا خواب عملی، سفارتی اور عسکری طور پر متعدد پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں